قرآن کریم میں لفظ ”شیعہ
“ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور بڑی شخصیتوں کی پیروی کرنے والوں کے
معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ خداوندعالم (حضرت موسی (علیہ السلام) کے واقعہ
میں)فرماتا ہے : ” وَ دَخَلَ الْمَدینَةَ عَلی حینِ غَفْلَةٍ مِنْ اٴَہْلِہا فَوَجَدَ فیہا رَجُلَیْنِ
یَقْتَتِلانِ ہذا مِنْ شیعَتِہِ وَ ہذا مِنْ عَدُوِّہِ فَاسْتَغاثَہُ الَّذی مِنْ
شیعَتِہِ عَلَی الَّذی مِنْ عَدُوِّہِ “(۱)
۔
اور موسٰی شہر میں اس وقت داخل ہوئے جب لوگ غفلت کی نیند میں تھے تو انہوں نے دو
آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا ایک ان کے شیعوں میں سے تھا اور ایک دشمنوں میں سے تو جو
ان کے شیعوں میں سے تھا اس نے دشمن کے ظلم کی فریاد کی ۔
دوسری جگہ فرماتا ہے : ”
وَ إِنَّ مِنْ شیعَتِہِ لَإِبْراہیمَ ، إِذْ جاء َ رَبَّہُ بِقَلْبٍ سَلیم“ (۲) ۔ اور یقینا نوح علیہ السّلام ہی کے پیروکاروں
میں سے ابراہیم علیہ السّلام بھی تھے ، جب اللہ کی بارگاہ میں قلب سلیم کے ساتھ
حاضر ہوئے ۔
اختلاف اور تفرقہ کے
معنی میں بھی استعمال ہوا ہے : ”مِنَ الَّذینَ فَرَّقُوا دینَہُمْ وَ کانُوا
شِیَعاً کُلُّ حِزْبٍ بِما لَدَیْہِمْ فَرِحُونَ “ (۳)
۔
ن لوگوں میں سے جنہوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں پھر
ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر مست اور مگن ہے ۔
جب بھی پیروی کے معنی
میں استعمال ہوتا ہے تو یہ مثبت اور ایجابی پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے (۴) اور جب تفرقہ اور اختلاف کے معنی میں استعمال ہوتا
ہے تو اس وقت منفی معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے (۵)
۔
لیکن حدیث میں چونکہ
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) اصلی عرب تھے لہذا انہوں نے اس لفظ کو اس
کے حقیقی معنی (پیروی کرنے والے )میں استعمال کیا ہے ۔ جس وقت یہ آیت ” إِنَّ
الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ اٴُولئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ “ (اور بے
شک جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بہترین خلائق ہیں )(۶) ۔نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس سے حضرت علی (علیہ السلام) کی پیروی کرنے والوں
(شیعوں) کی تعریف کی ۔ محدثین اور مفسرین نے متعدد روایات میں نقل کیا ہے کہ رسول
خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کی پیروی کرنے والے
گروہ کو خیر البریة (بہترین انسان) کے نام سے یاد کیا ہے ۔
ان میں سے بعض احادیث یہ
ہیں
:
۱۔
ابن مردویہ نے عایشہ سے اس طرح نقل کیا ہے کہ عایشہ نے کہا : یا رسول اللہ (ص) خدا
کے نزدیک بہترین افراد کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا : ائے عایشہ ! کیا تم اس آیت ”
ان الذین آمنوا و عملوا الصالحات اولئک ھم خیر البریہ ) کی تلاوت نہیں کرتی ہو؟(۷) ۔
۲۔ ابن
عساکر نے جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ پیغمبر اکرم (صلی اللہ
علیہ و آ لہ وسلم) کے پاس موجود تھے کہ حضرت علی (علیہ السلام) تشریف لائے ،
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) نے فرمایا : اس خدا کی قسم
جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ اور ان کی پیروی کرنے والے قیامت کے روز
کامیاب ہیں، اور یہ آیت ” إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ اٴُولئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ
“ نازل ہوئی ۔ اس کے بعد سے جب بھی حضرت علی (علیہ السلام) آتے تھے تو اصحاب کہتے
تھے ”خیر البریہ“ (بہترین انسان) آگئے (۸) ۔
۳۔
ابن عدی اور ابن عساکر نے ابوسعید سے نقل روایت کی ہے کہ ” علی“ (علیہ السلام) خیر
البریہ ہیں(۹) ۔
۴۔
ابن عدی نے ابن عباس سے نقل کیاہے : جب یہ آیت ” إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ
عَمِلُوا الصَّالِحاتِ اٴُولئِکَ
ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ “ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا : قیامت کے روز آپ اور آپ
کی پیروی کرنے والے”خیر البریة“ (بہترین انسان) ہیں، آپ لوگ بھی اللہ سے راضی ہو
اور اللہ بھی تم لوگوں سے راضی ہے (۱۰)
۔
۵۔
ابن مردویہ نے حضرت علی (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام)نے
فرمایا کہ مجھے سے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: کیا تم نے
خداوند عالم کے اس کلام کو نہیں سنا ہے ” إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا
الصَّالِحاتِ اٴُولئِکَ
ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ “ ؟ خیر البریہ آپ اور آپ کے چاہنے والے ہیں ،میں تم سے
حوض کوثر کے پاس ملنے کا وعدہ کرتا ہوں، جس وقت امتوں کو حساب و کتاب کے لئے بلایا
جائے گا، تو تم کو بھی بلایا جائے گا (۱۱)
۔
(۱۲) ۔
۱۔
سورہ قصص، آیت ۱۵۔
۲۔
سورہ صافات، آیت ۸۳۔۸۴۔
۳۔
سورہ روم، آیت ۳۲۔
۴۔
جیسے : ” وَ دَخَلَ الْمَدینَةَ عَلی حینِ غَفْلَةٍ مِنْ اٴَہْلِہا فَوَجَدَ فیہا
رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلانِ ہذا مِنْ شیعَتِہِ وَ ہذا مِنْ عَدُوِّہِ فَاسْتَغاثَہُ
الَّذی مِنْ شیعَتِہِ عَلَی الَّذی مِنْ عَدُوِّہِ “(۱) ۔
اور موسٰی شہر میں اس وقت داخل ہوئے جب لوگ غفلت کی نیند میں تھے تو انہوں نے دو
آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا ایک ان کے شیعوں میں سے تھا اور ایک دشمنوں میں سے تو
جو ان کے شیعوں میں سے تھا اس نے دشمن کے ظلم کی فریاد کی ۔
۵۔ ”
اٴَوْ یَلْبِسَکُمْ
شِیَعاً وَ یُذیقَ بَعْضَکُمْ بَاٴْسَ “ ۔(سورہ انعام ، آیت ۶۵) ۔
۶۔
سورہ بینہ ، آیت ۷۔
۷۔
الدر المنثور ، ج ۶، ص ۵۸۹، سورہ بینہ کی ساتویں آیت کی تفسیر۔
۸۔
گذشتہ حوالہ، ج ۶،ص ۵۸۹۔
۹۔
گذشتہ حوالہ۔
۱۰۔
الدر المنثور ، ج ۶، ص ۵۸۹۔
۱۱۔
گذشتہ حوالہ۔
۱۲۔
سیمای عقاید شیعہ، ص ۲۵۔
www.erfan.ir/urdu/32851.html : منبع
سرچشمۂ معرفت
|
|||||||||||||||||||||||||||||||||
لفظ شیعہ قرآن مجید میں:
٤۔ شیعہ یعنی تابع قرآن شدن بندہ مولای انس و جان شدن قرآن مجید میں شیعہ و مشتقات شیعہ گیارہ مقام پر ذکر ہوئے ہیں:
٣۔ شیعہ اصطلاحاً:
شیعہ یعنی دست بیعت با علی
بعد از او با ےازدہ نور جلی بعض الفاظ ِعرب وضع کے خلاف استعمال ہوتے ہیں اور عرف میں دوسرے معنی میں مشہور ہوجاتے ہیں جیسے لفظ صلاة کو واضع نے دعا کے معنی کے لیے وضع کیا لیکن بعد میں خاص افعال صلاة کہلائے اسی طرح لغت میںکسی لفظ کے معنی کچھ اور ہیں جبکہ عرف میں کسی دوسرے معنی میں مشہور ہوجاتا ہے۔ لفظ شیعہ کا بھی یہی حال ہے۔ لغت میں شیعہ کسی خاص شخص کی پیروی واطاعت کرنے والے گروہ کو کہتے ہیں لیکن اصطلاح میںحضرت علی ابن ابی طالب اورگیارہ اماموں کی پیروی و اطاعت کرنے والوں کو شیعہ کہتے ہیں۔ اگر اصطلاحات شیعہ پر غور و فکر سے کام لیا جائے توچند اختلافات نظر آئیںگے۔ جس کا اختصار کے ساتھ بیان کردینا مناسب ہے۔ الف۔ شہید ثانی رضوان اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: شیعہ وہ ہے کہ جو حضرت علی کا مطیع و فرمانبردار ہو اور حضرت علی کو دیگر تمام اصحاب پیغمبر ۖ پر فوقیت دیتا ہو ۔ چاہے باقی گیارہ اماموں کی امامت کا قائل نہ بھی ہو۔ شہید ثانی کی اس تعریف کے مطابق لفظ شیعہ امامیہ، اسماعلیہ، زیدیہ، جارودیہ، واقفیہ، ذوادویہ اور فطحیہ وغیرہ پربھی برابر سے منطبق آئے گا۔چونکہ یہ تمام فرقے حضرت علی کی امامت کے قائل ہیں اور حضرت علی کو اصحاب پر مقدم جانتے ہیں اور باقی ائمہ علیہم السلام کی امامت کے قائل نہیں ہیں. ب: شہرستانی ملل و نحل میں کہتے ہیں کہ: اصطلاح میں شیعہ ان لوگوں کو کہاجاتا ہے کہ جو حضرت علی کی امامت کے قائل ہوں اور خلافت علی پر نص پیغمبرۖ کے معتقد ہوں اگرچہ نص جلی ہو یا خفی اور امامت کو علی و اولاد علی یعنی بارہ اماموں میں منحصر جانتے ہوں جن میں اول حضرت علی اور آخر امام زمانہ عجل اللہ تعالے فرجہ الشریف ہیں۔ ج: ابن حزم کہتے ہیں کہ جو شخص بھی اس بات کا قائل ہے کہ حضرت علی بعدِ پیغمبر ۖ تمام اصحاب رسول ۖ اور تمام امت مسلمہ سے افضل واعظم ہونے کے باعث امامت و خلافت کے مستحق ہیںاور علی اورگیارہ امام آیت (ےٰا اَےُّھَا الَّذِےْنَ آمَنُوْا اَطِےْعُوا اللّٰہَ ... الخ) (١)کے تحت اولی الامر ہیں جو شخص بارہ اماموں کی امامت و ولایت کاقائل ہے بس وہی شخص شیعہ ہے اگرچہ نظر یاتی حوالے سے اختلاف بھی رکھتا ہو۔ لغوی اصطلاحات و تعریفات پر غور و فکر کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ابن حزم اور شہرستانی کی تعریفیں دیگر تمام تعریفوں سے بہتر اور اچھی ہیں۔چونکہ ان دو نوںحضرات نے حضرت علی اور دیگر ائمہ اطہار علیہم السلام کے افضل الناس ہونے کا ذکر کیا ہے اور یہ بات شیعہ عقائد میں بنیا د و اساس کی حیثیت رکھتی ہے لہذا فرقہ زیدیہ کو شیعیت کا جزء قرار دینا بعیداز نظر ہے چونکہ فرقہ زیدیہ علوی نظریہ کا قائل ہے اسی لیے یہ فرقہ نص کے اعتبار سے عقیدہ نہیں رکھتے ہیں ان کاحال یہ ہے کہ علوی کی حمایت میں عقل سلیم کو بالائے طاق رکھ کرتلوار سے بات کرتے ہیں۔یہ حمایت کے معاملہ میں تلوار کا سہارا لیتے ہیں اور عقل سلیم کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ۔جوبھی نسل علوی سے ہو پس اس کو امام مانتے ہیں لہذا اس فرقہ کو شیعہ نام دینا یا جزء شیعہ قرار دیناایک فاحش غلطی ہے۔ حقیقی شیعہ اور واقعی شیعہ کا ذکر بعد میں کریں گے کہ شیعہ کی کتنی اقسام ہیں اور ان کے در میان کیا کیا اختلافات ہیں۔ ..............
١: نساء /٥٩
http://alhassanain.com/urdu/book/book/belief_library/religion_and_sects/sarchashmae_marifat/004.html
: منبع
|
Good
ReplyDeleteويتكون السكان المسلمين في العالم تتألف من اثنين من الطوائف الرئيسية، الشيعة والسنة. تقليديا، وتميزت الزواج من المجموعتين مجموعة فريدة من الطقوس والشعائر وتتقاطع الزيجات كانت أقل شيوعا.
ReplyDelete