Friday, 4 September 2015

کیا شیعہ اثنا عشریہ کا اصل قرآن وہ ہے کہ جو حضرت علی علیہ السلام نےمرتب کیا تھا ؟


کیا شیعہ قرآن مجید میں تحریف کے قائل ہیں؟
کیا شیعون کا اصلی قران امام مھدی کے پاس ہے؟
کیا شیعہ حضرت علی کا ترتیب کردہ قران کو اصلی تصور کرتے ہے؟

(اہل حدیث عالم) برادر عمران (ھندوستانی) اور منظور نعمانی دیوبندی کے اعتراضات
کے جوابات مولانا کامران حیدر (ھندوستانی) کی زبانی اس کلپ کو سنیں




مولانا منظور نعمانی کی رائے ہے کہ جو شیعہ علماء ومجتہدین تحریف قرآن کے عقیدے سے انکار کرتے ہیں اور موجودہ قرآن پر ہم اہلسنت ہی کی طرح ایمان کا اظہار کرتے ہیں ان کے ان رویہ کی کوئی معقول اور قابل قبول توجیہہ اس کے سوا کچھ نہیں کی جاسکتی کہ یہ ان کا تقیہ ہے ۔مولانا نعمانی تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں شیعہ علماء ومجتہدین نے بھی بالعموم تحریف کے عقیدے سے انکار کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے ۔
شیعہ اثنا عشریہ کا اصل قرآن وہ ہے کہ جو حضرت علی علیہ السلام نےمرتب کیا تھا
تحریف قرآن والی روایتوں کی مخالفت بڑے بڑے شیعہ علماء نے کی ہے جن کی فہرست بڑی طویل ہے ،ہم صرف دو مجتہدین عظام کی آراء پیش کرتے ہیں تو پہلے اثناعشریہ ک ےمرجعہ تقلید مجتہد اعظم آقائے سیدابو القاسم خوئی کی رائے پیش کی جاتی ہے ۔
"اس معنی میں تحریف کو موجودہ قرآن کچھ کلام غیر قرآن بھی ہے تو اس کے بطلان پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے (البیان مقدمہ تفسیر قرآں ص 200) جن روایات سے تحریف کا اشارہ ملتا ہے وہ اخبار احاد ہیں جو کہ علم وعمل کے لئے مفید نہیں (البیان ص 221)
اب دور اکبر وجہا نگیری کے قاضی نوراللہ شوستری کہ جو شیعہ اثناعشریہ
میں انتہائی بلند مقام رکھتے ہیں اور شہید ثالث کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں کہ ' کی رائے ملاحظہ ہو۔
"قرآن اتنا ہی ہے جتنا موجود ہے جو اس سے زیادہ کہے وہ جھوٹا ہے ۔قرآن عہد رسالت میں مجموع ومولف اور ہزاروں صحابہ اسے حفظ ونقل کرتے تھے ۔ جمہور امامیہ عدم تغیر کے معتقد ہیں ۔زیادتی کی روایات احاد میں سے ہیں جو ناقابل اعتبار ہیں ، چنانچہ غیر موثق آدمیوں نے انہیں روایت کیا ہے " (مصائب النوائب ص 105)
صاحب تفسیر صافی جناب ملافیض الکاشانی کی رائے ۔"اگر قرآن مجید میں کمی وزیادتی تسلیم کرلی جائے تو کچھ اشکال دارد ہوتے ہیں ،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب قرآن محرف ومغیّر تسلیم کرلیا جائے تو قرآن مجید کی کسی شے پر بھی اعتماد نہیں رہ سکتا "(تفسیر صافی ص 23)
چار حضرات (شیخ صدوق ،شریف مرتضی ۔ شیخ طوسی ۔طبرسی ) کا تذکرہ کرتے
ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ قرآن کوعام مسلمانوں کی طرح محفوظ اور غیر محرف مانتے ہیں لیکن شیعہ دنیانے ان کی اس بات کو قبول نہیں کیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان حضرات سے پہلے شیعہ دنیا تحریف قرآن کی قائل تھی ۔
ان چار حضرات کے عقید ہ عدم تحریف قرآن کو تسلیم کرلینے کے بعد شیعہ اثناعشریہ کا عقیدہ یہ بتانا کہ وہ تحریف قرآن کے قائل ہیں ظلم کے سوا کچھ نہیں کیونکہ یہ چاروں ہستیاں شیعہ دنیا میں بہت بلند مقام رکھتی ہیں ۔ ان چار کے علاوہ ایک اور بلند ہستی شریف مرتضی کے استاد شیخ مفید کی تھی اوریہ بھی قرآن کو محفوظ او رغیر محرف مانتے تھے ۔شیعہ اثناعشریہ کے ہاں حدیث کی چار کتابیں (اصول کافی ،من لایحضرہ الفقیہ ،تہذیب الا حکام ،استبصار ) وہی بنیادی مقام رکھتی ہی جو اہلسنت کے ہاں صحاح ستہ کو حاصل ہے اور شیخ صدوق ہی وہ بزرگ ہیں کہ جو ان چاروں میں سے ایک من لا یحضرہ الفقیہ کے اور شیخ طوسی وہ ہستی ہیں کہ جو ان میں سے دو تہذیب الاحکام اور استبصار کے مولف ہیں ۔
نام نہ بتانا اور صرف یہ کہہ دینا کہ ان سے پہلے شیعہ دنیا تحریف قرآن کی قائل تھی ۔غیر معقول بات ہے اوریہ بات اور زیادہ غیر معقول ہے کہ شیعہ دنیا نے ان کی اس بات کو قبول نہیں کیا ۔وہ علما ء کہ جو شیعت میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ان کے بارے میں ایسی بات کہنا کہ شیعہ دنیا نے ان کی بات کو قبول نہیں کیا ۔ اور وہ بھی محض چند لوگوں کی آرا کی وجہ سے ظلم وزیادتی کے سوا کچھ نہیں ۔
اگر مختلف زمانوں میں بعض شیعہ علماء نے قرآن کے محرف ہونے کی موضوع پر کتابیں لکھی ہیں تو اسی زمانہ میں انہوں نے ان کی رد میں بھی کتابیں لکھی ہیں یہی صورت علامہ نوری کی فصل الخطاب کی ہے کہ اس کی مخالفت میں بہت سے جب کہ یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ ہمارے زمانہ کے شیعہ علماء عام طور سے قرآن کے غیر محرف ہونے کا اقرار کرتے ہیں ۔یہاں پر ہم یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ جو شیعہ علماء تحریف قرآن کے قائل ہیں وہ بھی کچھ کمی کے قائل ہیں ، مگر اس پر سب کا اجماع ہے کہ موجودہ قرآن تمام تر اللہ تعالی ہی کا کلام ہے اور اس میں ایک حرف بھی غیراللہ کا شامل نہیں ہے ۔
ہم یہ بات اچھی طرح سے واضح کئے دیتے ہیں کہ راقم السطور نے کبھی تقیہ سے کام نہیں لیا ۔اور اس کتاب میں بھی ہرجگہ بڑی صاف گوئی سے کام لیا ہے ۔اور یہاں بھی قرآن کےبارے میں شیعہ اثنا عشریہ کا عقیدہ واضح الفاظ میں بیان کئے دیتے ہیں ۔
شیعہ اثناعشریہ کا قرآن شریف کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ موجودہ قرآن وہی ہے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا ۔ اس میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی نہیں ہے اور یہ بات اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ قرآن شریف کی موجودہ ترتیب دہ نہیں ہے کہ جس ترتیب سے رسول اللہ پر نازل ہو ا تھا ۔ یہ بد فطرت مولوی شیعہ اثنا عشریہ پر صرف تحریف کے قائل ہونے کا الزام ہی نہیں لگاتے بلکہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ ان کے گھر وں میں کوئی اور قرآن پڑھا جاتا ہے ، لہذا ہم واضح کئے دیتے ہیں اثنا عشریہ کے ہر گھر میں وہی قرآن پڑھا جاتا ہے جو دوسرے مسلمانوں کے ہاں پڑھا جاتا ہے ۔اس میں زیرو زبر کا بھی فرق نہیں ہے ۔ صرف حاشیہ کی تفسیر اور ترجمہ کی زبان کا فرق ہے ،یہی فرق مسلمانوں کے دوسرے تمام فرقوں کے درمیان ہے ۔
مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق نیتوں کا حال جاننے والا تو صرف اللہ تعالی ہی ہے ، مگر دیوبند کا فتوے باز ملا کہتا ہے کہ نہیں ! ہم بھی جانتے ہیں خاص طور سے شیعوں کی نیت کا حال ۔رسول اللہ کی سنت تویہ ہے کہ جس نے کلمہ پڑھ لیا اسے اپنے دامن میں جگہ دے دی ،حالانکہ بہت سوں کی حقیقت جانتے تھے مگر قبول کئے ہوئے تھے اور بعض تو آستین کے سانپ کی طرح پل رہے تھے ۔ مگر یہ اہلسنت کیسے ہیں کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ شیعہ اثنا عشریہ قرآن کے غیر محرف ہونے پر یقین کا اظہار کرتے ہیں انھیں کافر قراردیتے ہیں ۔
حضرت علی کے مرتب کردہ قرآن کا تذکرہ اس طرح کیا جاتا ہے کہ گویا وہ موجودہ قرآن سے الگ کوئی شے ہے ۔ حالانکہ اس قرآن کے بارے علماء نے جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے ۔
حضرت علی نے اپنے مصحف میں منسوخ آیات پہلے رکھیں اور ناسخ بعد میں آپ کا مرتب کیا ہوا قرآن نزول کے مطابق تھا ۔ شروع میں سورہ اقراء پھر سورہ مدثر پھر سورہ قلم اسی طرح پہلے مکی سورتین پھر مدنی ۔
حبیب السیر جلد 1 صفحہ 4 کے مطابق تو علی کا مرتب کردہ قرآن افادیت کے اعتبار سے بھر پور تھا ۔ اس کی عبارت ملاحظہ ہو ۔
"یعنی حضرت علی کا مصحف تاریخ نزول آیات کی ترتیب کے مطابق تھا اس میں شان نزول او ر اوقات نزول آیات اور تاویل متشابہات مذکور تھیں ناسخ ومنسوخ متعین او رعام وخاص کے ساتھ کیفیت قراءت بیان کی گئی تھی "
اس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ قرآن اور حضرت علی کے مرتب کردہ قرآن کے اصل متن میں کوئی فرق نہیں ہے مگر پھر بھی یہ کہا جاتا ہے کہ شیعہ اثنا عشریہ کا قرآن تو وہ ہے کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے پاس تھا اور پھران کی اولاد میں منتقل ہوتا ہوا حضرت امام مہدی تک پہنچا اور جب وہ ظہور فرمائیں گے تو اصل قرآن پیش کرینگے ۔
اگر شیعہ اثنا عشریہ کی خطا یہ ہے کہ مندرجہ بالا صفات کے حامل اس قرآن کے وجود پر یقین رکھتے کہ جو حضرت علی نے مرتب کیا تھا تو جنا ب ولی اللہ دہلوی بھی اس سلسلہ میں خطا وار ہیں کہ انہوں نے اپنی کتاب ازالۃ الخفا مقصد دوم میں فرمایا ہے کہ :-
ونصیب او از حیاء علوم دینہ آں است کہ جمع کرد قرآن را بحضور آنحضرت وترتیب دادہ بو آں را لیکن تقدیر مساعد شیوع آن نہ شد (ازالۃ الخلفاء مقصد 2 ص 273)
ترجمہ :- حضرت علی کا حصہ علوم دینہ کے زندہ کرنے میں یہ بھی ہے کہ آپ نے آنحضرت کے سامنے قرآن کو جمع مرتب کیا تھا مگر تقدیر نے اس کے شایع ہونے میں مدد نہ کی "
آخر میں شیعہ اثنا عشریہ کے عقیدے قرآں کے بارے میں علمائے مصر (اہلسنت )کی رائے :-
اخوان المسلمین کے ایک مفکر سالم البہساوی اپنی کتاب السنتہ المغتری علیہا ص 60 پر لکھتے ہیں ۔
"جو قرآن ہم اہلسنت کے پاس موجود ہے بالکل وہی شیعہ مساجد اور گھروں میں موجود ہوتا ہے "
ڈاکٹر محمد ابو زہرہ اپنی کتاب الامام الصادق ، صفحہ 296 میں لکھتے ہیں ۔
"ہمارے امامیہ برادران باوجودیکہ وہ بعض مسائل میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن قرآن کے بارے میں ان کا وہی نظریہ ہے جو ہر مومن کا ہے ۔
شیخ غزالی اپنی کتاب دفاع عن العقیدۃ والشریعۃ ضد المطاعن المستشرقین صفحہ 264 پر لکھتے ہیں ۔
"میں نے محفل میں ایک شخص کو کتے ہوئے سنا کہ شیعوں کا ایک اور قرآن ہے جو ہمارے معروف قرآن سے کم وبیش ہے ،میں نے ان سے کہا ، وہ قرآن کہاں ہے ؟ عالم اسلام تین براعظموں پر پھیلا ہوا ہے اور رسول اکرم کی بیعثت سے لے کر آج تک چودہ صدیاں گذر چکی ہیں اور لوگوں کو صرف ایک ہی قرآن کا علم ہے ، جس کا آغاز واختتام اور سورت وآیات کی تعداد معلوم ہے ۔یہ دوسرا قرآن کہاں ہے ؟ اس طویل عرصہ میں کسی انسان اور جن کو اس کے کسی ایک نسخہ پر بھی اطلاع یا آگاہی کیوں نہیں ہوئی ۔اس سے اپنے بھائیوں اور اپنی کتاب کے بارے میں بداگمانیاں پھیلتی ہیں ۔ قرآن ایک ہی ہے جو اگر قاہرہ میں چھپتا ہے تو اسے نجف اشرف اور تہران میں بھی مقدسمجھا جاتا ہے ۔اور اس کے نسخے ان کے ہاتھوں اور گھروں میں ہوتے ہیں

1 comment:

  1. Shariq Rouhani9 March 2016 at 23:50

    Brother,this website has not been updated since long....why....???

    ReplyDelete