امام صادق ع)نے فرمایا: بے شک ابوطالب کی مثال اصحاب کہف کی مثال ہے ، انہوں نے اپنا ایمان چھپائے رکھا اور شرک کا اظہار کیا
اس حدیث سے کچھ جاھل لوگ حضرت ابوطالب کا کفر ثابت کرتے ہے
اس دلیل کا رد حاصل کرنے کے لئے اس کلپ کو سنیں
شکریہ
مزید ویڈیوز کے لیے ہمیں جوائن کریں
https://www.facebook.com/safeerehaqofficial
ابوطالب(ع) نے اپنا ايمان كيوں چھپايا؟
اگر ہم دعوت
اسلامى كے تدريجى سفر اورابوطالب(ع) كے طرز عمل كا مطالعہ كريں تو پتہ چلتا ہے كہ
وہ پہلے پہل ہوبہو مومن آل فرعون كى طرح اپنا ايمان چھپاتے تھے_ ان كى روش يہ رہى
كہ كبھى اس كو ظاہر كرتے اور كبھى مخفى ركھتے يہاں تك كہ بنى ہاشم شعب ابوطالب ميں
محصور ہوئے اس كے بعد انہوں نے اسے زيادہ ظاہر كرنا شروع كيا_
امام
صادق(ع) سے منقول ہے كہ حضرت ابوطالب(ع) كى مثال اصحاب كہف كى سى ہے جنہوں نے اپنا
ايمان چھپايا اور شرك كا دكھاوا كيا پس خدانے ان كو دگنا اجر عنايت كيا_
3
________________________________________
3_ امالى صدوق ص 551، شرح نہج
البلاغة معتزلى ج 14 ص 70، اصول كافى ج 1 ص 373، روضة الواعظين ص 139، بحار
الانوار ج 35 ص 111، الغدير ج 7 ص 385_390 از مآخذ مذكور، الحجة (ابن معد) ص 17اور
115، تفسير ابى الفتوح ج 4 ص 212، الدرجات الرفيعة اور ضياء العالمين_
200
شعبى نے ذكر
سندكے بغير اميرالمؤمنين حضرت علي(ع) سے نقل كيا ہے كہ والله ابوطالب بن عبدالمطلب
بن عبد مناف مسلمان اور مومن تھے اور اس خوف سے اپنا ايمان چھپاتے تھے كہ قريش بنى
ہاشم كے خلاف اعلان جنگ نہ كريں_ ابن عباس سے بھى اسى طرح كى بات مروى ہے_ (1)
اسكى تائيد ميں اور بھى متعدد احاديث موجود ہيںجنكے ذكر كى يہاں گنجائشے نہيں_
(2)
ليكن ايك
اور روايت كا تذكرہ ضرورى معلوم ہوتا ہے جو شايد حقيقت سے قريب تر ہو_ اسے شريف
نسابہ علوى (معروف بہ موضح) نے اپنى اسناد كے ساتھ يوں بيان كيا ہے جب ابوطالب(ع)
كى وفات ہوئي تو اس وقت مْردوں پر نماز نہيں پڑھى جاتى تھى پس نبي(ص) نے ان كى اور
حضرت خديجہ كى نماز جنازہ نہيں پڑھى _بس اتنا ہوا كہ حضرت ابوطالب كا جنازہ گزرا
جبكہ حضرت علي(ع) ، جعفر(ع) اور حمزہ(ع) بيٹھے ہوئے تھے_ (3) تب وہ كھڑے ہوگئے اور
جنازے كى مشايعت كى پھر ان كيلئے مغفرت كى دعا كي_
پس بعض
لوگوں نے كہا ہم اپنے مشرك مردوں اور رشتہ داروں كيلئے دعا كرتے ہيں_ (لوگوں نے يہ
خيال كيا كہ حضرت ابوطالب كى حالت شرك ميں وفات ہوئي اسلئے كہ وہ ايمان كو چھپاتے
تھے) چنانچہ خدا نے اس آيت ميں حضرت ابوطالب كو شرك سے منزہ ،نيز اپنے نبي(ص) اور
مذكورہ تين ہستيوں كو خطاسے برى قرار ديا ہے (ما كان للنبى والذين آمنوا ان
يستغفروا للمشركين و لوكانوا اولى قربي) يعنى نبى اور مومنين كيلئے روانہيں كہ وہ
مشركين كيلئے طلب مغفرت كريں اگرچہ وہ ان كے قريبى رشتہ دارہى كيوں نہ ہوں_
پس جو بھى
حضرت ابوطالب كو نعوذ بالله كافر سمجھے تو گويا اس نے نبي(ص) كو خطا كار ٹھہرايا
حالانكہ خدانے آپ(ص) كے اقوال و افعال كو خطاسے منزہ قرار ديا ہے_
(4)
________________________________________
1_ امالى
صدوق ص 550، الغدير ج 8 ص 388 از كتاب الحجة ص 24، 94، 115 _
2_ رجوع
كريں الغدير ج 7 ص 388_390 از الفصول و المختارة ص 80، اكمال الدين ص 103 اور كتاب
الحجة (ابن معد) از ابوالفرج اصفہاني_
3_ حضرت
جعفر حبشہ گئے ہوئے تھے پس يا تو وہ مختصر مدت كيلئے وہاں سے لوٹنے كے بعد پھر
واپس ہوئے تھے يا راوى نے اپنى طرف سے عمداً يا سہواً ايسى بات لكھ دى ہے_
4_ الغدير
ج 7ص 399 از كتاب الحجة (ابن معد) ص 168_
201
ايمان ابوطالب (ع) كو چھپانے كى ضرورت كيا تھي؟
ہم جرا ت كے
ساتھ يہ كہہ سكتے ہيں كہ ابوطالب(ع) كا اپنے ايمان كو مخفى ركھنا اسلام كى ايك
شديد ضرورت تھى اور اس كى وجہ يہ تھى كہ دعوت اسلامى كو ايك ايسے بااثر فرد كى
ضرورت تھى جو اس دعوت كيپشت پناہى اور اس كے علمبردار كى محافظت كرتا بشرطيكہ
وہخود غير جانبدار ہوتا تاكہ اس كى بات ميں وزن ہو _يوں اسلامى دعوت اپنى حركت و
كاركردگى كو غير مؤثر بنانے والے ايك بہت بڑے دباؤ كا سامنا كئے بغير اپنى راہ پر
چل نكلتي_
ابن كثير
وغيرہ نے كہا ہے اگر ابوطالب(ع) مسلمان ہوجاتے (ہم تو يہ كہتے ہيں كہ وہ مسلمان
تھے ليكن اس حقيقت كو چھپاتے تھے) تو مشركين قريش كے پاس ان كى كوئي حيثيت نہ رہتى
اور نہ ان كى بات ميں وزن ہوتا _نيز نہ ان پر آپ كى ہيبت باقى رہتى اور نہ وہ ان
كا احترام ملحوظ ركھتے بلكہ ان كے خلاف ان ميں جسارت پيدا ہوتى اور اپنے دست و
زبان سے ان كى مخالفت كرتے_ (1)
________________________________________
1_ البداية
و النہاية ج 3 ص 41 نيز رجوع كريں السيرة النبوية (دحلان) ج 1 ص 46_
202
No comments:
Post a Comment