Friday, 24 July 2015

کیا رسول اللّہ کی قبر پہ جا کر دعا کرنا شرک و بدعت ہے ؟





اللّہ تعالی سے دعا کرتے وقت رسول اللّہ کا وسیلہ شرک ہے ؟
کیا رسول اللّہ کی قبر پہ جا کر دعا کرنا شرک و بدعت ہے ؟
جواب مستند احادیث اور کتب اہل سنّت کی روشنی میں حاصل کرنے کے لئے اس کلپ کو سنیں
شکریہ
مزید ویڈیوز کے لیے ہمیں جوائن کریں

وہابی افکار کا ردّ


٥۔زیارت قبور

وہابیوں کے نزدیک زیارت رسو ل ۖ
اس میں شک نہیں ہے کہ قرآن وسنت کی رو سے پیغمبر ۖ کی قبر مبارک کی زیارت ایک شرعی اور پسندیدہ عمل ہے پوری تاریخ اسلام میں مسلمان اسی پر عمل پیرا رہے ہیں اور اس طرح مادی ومعنوی کمالات سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں .
جبکہ ابن تیمیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر ۖ کی قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے سفر کرناحرا م ہے اور باقی قبور کی زیارت بدرجہ اولیٰ حرام ہوگی .ابن تیمیہ نے اس فتوٰی کے لئے حدیث( شدّ الرّحال)کو دلیل قراردیا ہے.یہ حدیث قسطلانی نے ((ارشاد الساری )) (١)اور ابن حجر عسقلانی نے (( الجوہر المنظّم )) میں نقل کی ہے .
------------
١۔ارشاد الساری ٢: ٣٢٩.
اس نظریے کا جواب
ہم سب سے پہلے حکم شرعی کی چار دلیلوں ( قرآن ،سنت، صحابہ کرام کی سیرت اور عقل) کے ذریعہ سے ابن تیمیہ کے نظریہ کے باطل ہونے کو ثابت کریں گے اور پھر حدیث (( شدّ الرّحال ) ) کی تحقیق اور اس پر اشکال کرتے ہوئے اس سے لئے جانے والے مفہوم کے نادرست ہونے کو بیان کریں گے .اور یہ ثابت کریں گے کہ چار دلیلوں کی رو سے زیارت ایک شرعی عمل ہے .

١۔قرآن کی نظر میں

خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے :(( ولو أنّہم اذ ظلموا أنفسہم جاؤوک
فاستغفروا اللہ واستغفر لھم الرّسول لوجدوا اللہ توّابا رحیما ))
ترجمہ:اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا توآپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفارکرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتاتو یہ خداکو بڑاہی توبہ کرنے والااو ر مہربان پاتے. (١)
اس آیت کریمہ کی رو سے زیارت کا معنی جس کی زیارت کی جارہی اس کے پاس حاضر ہونا ہے ؛چاہے استغفار کی خاطر ہو یا کسی اور قصد سے . جب حیات رسول ۖ میں اس عمل کا پسندیدہ ہونا ثابت ہوگیا تو ان کی رحلت کے بعد بھی اسی طرح پسندیدہ ہوگا جیسا کہ ہم شفاعت کی بحث میں دلائل وشواہد کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ آنحضرت ۖ رحلت کے بعد بھی عالم برزخ میں زندہ ہیں اور زائر کے سلام کو سنتے ہیں اور اس کے اعمال ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں .

٢۔ احادیث کی نظر میں

خود پیغمبر ۖ سے ان کی قبر مطہّر کی زیارت اور اس کی تعظیم کے بارے میں بہت زیادہ روایات بیان ہوئی ہیںاور اہل سنت کے علمائے رجال نے ان تمام راویوں کی تائید کی ہے ان معتبر احادیث سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ زیارت کے بارے میں نقل کی گئی تمام تر روایات واحادیث کو جعلی قرار دینا پیغمبر ۖپربہت بڑی جھوٹی نسبت دینے کے مترادف ہے.اب ہم ان احادیث میں سے چند ایک کو بطورنمونہ پیش کر رہے ہیں :
پہلی حدیث :
اہل سنت کی متعدد کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا:
(( من زار قبری وجبت لہ شفاعتی ))
جوشخص میری قبر کی زیارت کرے تو مجھ پر واجب ہے کہ اس کی شفاعت کروں .
بہت سے حفاظ و محدثین نے اس حدیث کو نقل کیا ہے جن میں سے ابن ابی الدنیا ، ابن خزیمہ ، دار قطنی ، دولابی ، ابن عساکر اور تقی الدین سبکی و... ہیں.(١)
دوسری حدیث :
عبد اللہ بن عمر ایک مرفوع روایت( اہل سنت کے ہاں مرفوع روایت سے مراد صحیح اور معتبر روایت ہے.) میں بیان کرتے ہیںکہ پیغمبر ۖ نے فرمایا :
( (من جائنی زائرا لا تعملہ۔ لا تحملہ ۔ الاّ زیارتی کا ن حقّا علیّ أن أکون لہ شفیعا یوم القیامة ))
جو شخص فقط میری زیارت کی نیت سے میرے پاس آئے تو میرے لئے ضروری ہے کہ روز قیامت اس کی شفاعت کروں .
یہ حدیث اہل سنت کی سولہ کتب میں بیان کی گئی ہے اور اسکے راویوں میں سے طبرانی ، حافظ بن سکن بغدادی،دار قطنی اور ابونعیم اصفہانی کا نام لیا جاسکتا ہے .(٢)
تیسری حدیث :
عبداللہ بن عمر ایک اور مرفوع روایت میں بیانکرتے ہیں کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا:
((من حجّ فزار قبری بعد وفاتی کان کمن زارنی فی حیاتی ))
جس نے حانہ کعبہ کا حج کیا اور میری رحلت کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ہو .
یہ حدیث اہل سنت کی پچیس کتب میں نقل ہوئی ہے جس کے راویوں میں سے شیبانی ، ابویعلی ، بغوی ، ابن عدی و... ہیں .(١)
چوتھی حدیث :
عبد اللہ بن عمر مزید ایک مرفوع روایت میںبیان کرتے ہیں کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا :
(( من حجّ البیت ولم یزرنی فقد جفانی ))
جو شخص خانہ کعبہ کا حجّ کرے اور میری زیارت نہ کرے تو اس نے مجھ پر جفا کی .
اس حدیث کو بہت سے حفاظ و محدثین نے نقل کیا ہے جن میں سے سمہودی ، دارقطنی اور قسطلانی اور دیگر مؤلفین ہیں .( ٢)
------------
١۔المعجم الکبیر ١٢: ٤٠٦؛ سنن دار قطنی ٢: ٢٧٨.
٢۔نیل الأوطار ٥: ١٨٠؛ المصنف عبدالرزاق ٣: ٥٦٩؛ المواہب اللدنیة ٣: ٤٠٤.

٣۔ صحابہ کرام کی سیرت

زیارت کے جائز ہونے کی تیسری دلیل پیغمبر ۖ کے صحابہ کرام کی سیرت اوران کا کردار
ہے ایک روایت میں نقل کیا گیا ہے کہ جب عمر بن خطاب فتوحات شام سے مدینہ منورہ واپس پلٹے توسب سے پہلے مسجد میں گئے اور رسول خدا ۖ پر سلام کیا .( ١)
اس واقعہ کو(( فتوح الشام )) میں یوں نقل کیا گیا ہے : جب عمر نے اہالیان بیت المقدس کے ساتھ صلح کی تو کعب الأحبار ان کے پاس آیا اور اسلام قبول کرلیا . عمر اس کے اسلام لانے سے خوش ہوئے اور اس سے کہا: کیا تم میرے ساتھ مدینہ جاناپسند کرو گے تاکہ وہاں قبر پیغمبر کی زیارت کرکے اس سے فیضیاب ہو سکو ؟.
کعب الأحبار نے اسے قبول کرلیا اور جب عمر مدینہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ قبر پیغمبر ۖ پر جا کر ان پر سلام کیا .(٢)
مزید ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ عبداللہ بن عمر جب بھی سفر سے واپس آتے تو قبر پیغمبر ۖ پر جا کر کہتے : السلام علیک یا رسول اللہ ... .(٣)
عبداللہ بن عمر ہمیشہ قبر پیغمبر ۖ کے کنارے کھڑے ہو کر آنحضرت پر سلام بھیجا کرتے .(٤ )
------------
١۔شفاء السقام : ١٤٤؛ یاد ر ہے کہ یہاں پر ہماری بحث جدلی ہے جبکہ ہمارے نزدیک فقط سیرت معصوم حجت ہے چاہے وہ صحابی ہو یا نہ ہو .
٢۔فتوح الشام ١: ٢٤٤.
٣۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ٤: ١٣٤٠.
٤۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ٤: ١٣٤٠.
ایک اورروایت میں پڑھتے ہیں کہ ابن عون کہتے ہیں: ایک شخص نے نافع سے پوچھا : کیا عبداللہ بن عمر قبر پیغمبر پر کھڑے ہو کر آنحضرت ۖ پر سلام بھیجا کرتے ؟ تو نافع نے کہا: ہاں ، میں نے اسے ایک سو یااس سے بھی زیادہ مرتبہ دیکھا کہ قبر پیغمبر ۖ کے کنارے کھڑے ہو کر کہتے : سلام ہو اللہ کے رسول پر .(١)
حافظ عبدالغنی اور دیگر نے کہا ہے : حضرت بلال نے پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد فقط ایک بار اذان کہی اور وہ بھی اس وقت جب آنحضرت ۖ کی قبر کی زیارت کے لئے مدینہ گئے تھے .(٢)
تقی الدین سبکی کہتے ہیں: پیغمبر ۖ کی زیارت کے جائز ہونے پر ہماری دلیل حضرت بلال کا خواب نہیں ہے بلکہ ان کا عمل ہے . یہ عمل حضرت عمر کے دور خلافت میںاتنے سارے صحابہ کرام کی موجودگی میں انجام پایا. اور یہ امر ان پر پوشیدہ بھی نہیں تھا .اسی لئے انہوں نے حضرت بلال پر کوئی اعتراض نہیں کیا .( ٣)
------------
١۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ٤: ١٣٤٠.
٢۔ قاموس الرجال ٢: ٣٩٨. البتہ تاریخ میں جو چیز ثابت ہے وہ یہ کہ حضرت بلال نے آنحضرت ۖ کے بعد دو بار مدینہ میں اور ایک بار شام میں اذان کہی .
٣۔شفاء السقام : ١٤٢، باب سوم .