Saturday 19 September 2015

حضرت علی علیہ السلام جناب شیخین (حضرت ابوبکر ، عمر اور عثمان) بھی افضل ہے ؟


مدرسہ جامعہ بنّوریہ کے فتوی کے رد میں مولانا سید صادق رضاتقوی کا جواب کتب آھل سنت اور سیرت صحابہ کی روشنی میں۔









امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت کے دلائل صرف رسول خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و وسلم کی احادیث میں منحصر نہیں ہیں، بلکہ قرآن کریم کی بہت ساری آیات بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں جن کے ساتھ رسول اسلام (ص) کی احادیث ضمیمہ کرنے سے آپ کی افضلیت کو بخوبی ثابت کیا جا سکتا ہے۔
رسول خدا(ص) سے منقولہ احادیث پر غور کرنے سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام تمام اصحاب رسول پر برتری رکھتے تھے لیکن یہ برتری صرف مقائسہ اور موازنہ کی منزل میں نہیں بلکہ اس کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
در حقیقت، ان روایات کے مضامین و مطالب سے یہ پتا چلتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اپنے ذاتی کمالات کی بنا پر اکیلے وہ انسان ہیں جو بعد پیغمبر منصب خلافت و امامت کے حقدار ہیں۔
امیر المومنین علی علیہ السلام کو اگر ان معیاروں اور اصولوں کی بنا پر دیکھا جائے جو مکتب خلفا نے اس عنوان سے کہ حضرت علی بھی دیگر اصحاب کی طرح ایک صحابی ہیں معین کئے ہیں تب بھی آپ علم و دانش اور دیگر تمام انفرادی و اجتماعی صفات کے مالک ہونے بنا پر دوسرے تمام صحابہ پر افضلیت رکھتے ہیں۔ اس مقالہ میں امیر المومنین علی علیہ السلام کے دیگر اصحاب پر افضلیت کے چند موارد پیش کئے جاتے ہیں۔
پہلا حصہ
حضرت علی (ع) کی شخصیت کی تجلیاں
امام علی علیہ السلام کے الہی صفات و کمالات ہمارے لیے ایک کامل انسان اور الہی اسوہ ہونے کے عنوان سے نمونہ عمل ہیں۔ آپ کی شخصیت کی حقیقت تک پہنچنا، آپ کی بعض علمی اور اخلاقی تجلیوں کے ذریعے ممکن نہیں لیکن اگر آپ کی بعض تجلیوں اور صفتوں کو ہی پہچان لیا جائے تب بھی ان سے آپ کی دوسروں پر برتری کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ وہ بھی نہ صرف کسی ایک مورد اور خاص مقام پر بلکہ تمام موارد اور مراحل میں آپ تمام اصحاب رسول پر افضل نظر آئیں گے۔ یہاں پر ہم آپ کی شخصیت کی بعض تجلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱: امام علی علیہ السلام کی شخصیت کی علمی تجلی
یہ بات تاریخ کے مسلمات میں سے ہے کہ حضرت علی علیہ السلام تمام اصحاب سے اعلم تھے اور علم کے اس درجہ کمال پر فائز تھے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے آپ کے بارے میں فرمایا:
’’میں شہر علم ہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں‘‘ ( المستدرک علی صحیحین، ج
۳، ص۱۲۶، سنن ترمذی، ج۵، ص۵۳۷)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ بات کسی بھی صحابی کے لیے نہیں فرمائی۔ رسول خدا(ص) کی یہ حدیث، امیر المومنین علی(ع) کے اس بیان کے ذریعے مزید مستحکم اور مستدل ہو جاتی ہے جو آپ نے فرمایا:
’’ رسول خدا(ص) نے مجھے علم کے ہزار باب سکھائے کہ جس کے بعد ہر ایک باب سے ہزار باب مجھ پر کھل گئے‘‘۔ (کنزالعمال، ج
۱۳، ۱۱۴)
امام علی علیہ السلام علم لدنی کے واسطے دوسروں پر فوقیت رکھتے تھے آپ نے اس بارے میں فرمایا:
’’اگر غیب کے پردے میری آنکھوں سے ہٹ جائیں تو میرے یقین میں اضافہ نہیں ہو گا‘‘۔ ( مناقب ابن شہر آشوب،ج
۲ ص۳۸؛ ارشاد القلوب، ج۲ ص۱۴؛ بحار الانوار، ج۴۰ ص۱۵۳)
آپ کے واضح بیان کے مطابق، جو علم آپ کے پاس ہے اس کا کوئی کنارہ نہیں ہے اور اصحاب میں سے کوئی ایک بھی اس علم کے بوجھ کو اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا:
’’ آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا؛ بے شک یہاں علم کا ٹھاٹھے مارتا سمندر موجود ہے۔ کاش کوئی ہوتا جسے سیراب کیا جاتا‘‘۔ (نہج البلاغہ، کلمات قصار،
۱۴۷)۔
یہ بیان صراحتا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ امام علی علیہ السلام علم کے اس درجے پر فائز تھے کہ رسول خدا(ص) کے علاوہ کوئی اس تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اسی وجہ سے حضرت علی (ع) نے فرمایا:
’’ میرے سینے کی تہوں میں ایک ایسا پوشیدہ علم ہے جو مجھے مجبور کئے ہوئے ہے ورنہ اسے ظاہر کردوں تو تم اسی طرح لرزنے لگو گے جس طرح گہرے کنویں میں رسی تھرتھراتی اور لرزتی ہے‘‘ (نہج البلاغہ، خطبہ
۵)
ابی طفیل کہتے ہیں:
’’ میں نے علی(ع) کو دیکھا کہ وہ کہہ رہے تھے: مجھ سے پوچھ لو، خدا کی قسم مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کروں گے مگر میں تمہیں اس کا جواب دوں گا۔ اللہ کی کتاب کے بارے میں مجھ سے پوچھو۔ خدا کی قسم کتاب خدا میں کوئی ایسی آیت نہیں پائی جاتی مگر یہ کہ میں اس سے آگاہ ہوں کہ وہ رات یا دن یا صحرا یا پہاڑ پر نازل ہوئی‘‘۔ (فتح الباری، ج
۸ ص ۴۵۹؛ العمال ج۱۳، ص۱۸۵)
لیکن دوسرے صحابہ کی یہ منزل نہیں ہے۔ خلفیہ اول کا کہنا ہے:
’’ ۔۔۔ کیا کروں! اگر میں اللہ کی کتاب کے بارے میں کوئی بات کر دوں شاید خدا نے اس کا ارادہ نہ کیا ہو‘‘۔ ( الریاض النضرہ، ج
۳ ص۱۶۶؛  مستدرک حاکم، ج۳ص ۱۲۴، اسد الغابہ، ج۴ص۲۲)
سعید بن مسیب کہتے ہیں:
’’ اصحاب پیغمبر میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ جو کچھ مجھ سے پوچھنا چاہو پوچھ لو سوائے علی (ع) کے‘‘۔ ( الریاض النضرہ، ج
۳ ص۱۶۶؛ ینابیع المودۃ ص۲۸۶؛ ذخائر العقبیٰ، ص۸۳)
پیغمبر اکرم (ص) نے بارہا دیگر اصحاب پر حضرت علی (ع) کی افضلیت اور علمی برتری کی گواہی دی ہے جن میں سے بعض موارد کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
الف۔ پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت فاطمہ زہرا (س) سے فرمایا:
’’ میں نے تمہیں اس شخص کے عقد میں دیا ہے جو میری امت میں سب سے افضل ہے۔ جو سب سے اعلم ہے۔ جو سب سے زیادہ بردبار ہے وہ پہلا وہ شخص ہے جس نے اسلام قبول کیا ہے‘‘۔ (مسند احمد، ج
۵ ص۲۶)
ب۔ ’’میرے بعد میری امت میں سب سے اعلم علی ابن ابی طالب ہیں‘‘۔ (مناقب خوارزمی، ص
۴۹، تحقیق محمودی، کنزل العمال، ج۱۱ص ۶۱۴، ح ۳۲۹۷۷)
ج۔ ’’علی، میرے علم کے وارث اور میرا وصی ہیں اور وہ مجھ تک پہنچنے کا راستہ ہیں‘‘۔ ( کفایۃ الطالب: ص
۹۷ و ۷۰، شمس الاخبار: ص۲۹)
د۔ ’’علی میرے علم کا دروازہ اور جس رسالت کو میں لے کر آیا ہوں اس کو بیان کرنے والے ہیں‘‘۔ (کنزل العمال: ج
۶ ص ۱۵۶۔ کشف الخفاء: ج۱ ص ۲۰۴)
ھ۔ میری سنت کی نسبت میری امت میں سب سے زیادہ عالم اور میرے بعد (حق بجانب) فیصلہ کرنے والے علی بن ابی طالب ہیں‘‘۔ (الریاض النضرہ: ج
۲، ص ۱۹۴؛ مناقب خوارزمی: ص۴۸؛ تذکرۃ الخواص: ص۸۷؛ فیض القدیر: ج۴ ص۲۵۷؛ تفسیر نیشابوری، سورہ احقاف)۔
۲۔ امام علی علیہ السلام کی شخصیت کے ایمانی پہلو کی تجلی
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زندگی کے پل پل میں ایمانی اور معنوی تجلیوں کو آشکار کیا ہے اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک ایسا کردار پیش کیا ہے جس پر کوئی بھی سبقت حاصل نہیں کر سکتا۔
امیر المومنین علی علیہ السلام کا قوی ایمان صرف انہیں کی ذات والا صفات میں منحصر ہے جو مختلف صورتوں میں نمایاں ہوا ہے۔ یہ آپ کے ایمان ہی کا کرشمہ تھا جس کی بنا پر آپ عبادت کی دنیا میں بلند ترین منزل پر فائز تھے؛
قرآن کریم کی اس آیہ مبارکہ ’’ ۔۔۔تراھم رکعا سجدا۔۔۔‘‘ (فتح،
۲۹) (تم انہیں رکوع و سجود کی حالت میں دیکھتے ہو) کی تفسیر میں وارد ہوا ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ( شواھد التنزیل: ج۲ ص۱۸۳؛ تفسیر الکاشف: ج۳ص ۴۶۹؛ روح المعانی: ج۱۶ ص۱۱۷)
امام علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:
’’ میں نے سات سال دوسروں سے پہلے رسول خدا (ص) کے ساتھ نماز پڑھی اور میں سب سے پہلا وہ شخص ہوں جس نے رسول خدا کے ساتھ نماز جماعت پڑھی‘‘( تذکرۃ الخواص: ص
۶۳)
نیز فرمایا:
’’ میں اس امت میں سے کسی کو نہیں جانتا جو پیغمبر اکرم کے بعد میری طرح اللہ کا عبادت گزار بندہ رہا ہو‘‘ ( خصائص امیر المومنین، نسائی: ص
۴۶)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’ میں نے دوسروں سے پہلے اسلام قبول کیا اور اس سے پہلے کہ دوسرے نماز پڑھیں میں نے نماز پڑھی‘‘۔ (شرح نہج البلاغہ، ج
۱ص۱۰)
امام علی علیہ السلام سب سے زیادہ عابد تھے اور نماز اور روزے میں کوئی ان پر سبقت نہیں لے سکتا تھا۔ لوگ نماز شب اور دیگر مستحبی نمازوں کو بجا لانے میں آپ کی تاٗسّی کرتے تھے۔
ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:
’’ آپ اللہ سے راز و نیاز کرنے کے اتنا پابند تھے کہ لیلۃ الہریر میں، جب دو لشکروں کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی تھی چمڑے کی ایک کھال زمین پر بچھا کر نماز میں مشغول ہو گئے اس حال میں کہ آپ کے دائیں و بائیں طرف سے تیروں کی برسات ہو رہی تھی لیکن کسی طرح کا اضطراب آپ پر طاری نہیں ہوا اور نماز میں مشغول رہے یہاں تک کہ نماز مکمل ہوئی۔ یقینا ایسے انسان کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟ آپ ایسے شخص کے بارے میں کیا تصور رکھتے ہیں جس کی پیشانی پر سجدوں کے نشان بنے ہوئے ہوں؟‘‘( شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج
۱ص ۲۷)
انہوں نے مزید لکھا:
’’ علی بن حسین(ع) جو عبادت میں  آخری منزل پر فائز تھے پوچھا گیا کہ آپ کی عبادت آپ کے جد کی نسبت کتنی ہے؟
تو انہوں نے فرمایا: میری عبادت میرے جد علی کی نسبت ایسے ہے جیسے ان کی عبادت رسول خدا کی عبادت کی نسبت تھی‘‘۔ ( شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج
۱، ص۹)
یہ آپ کے ایمان کا اثر تھا کہ آپ الہی اخلاق و اقدار کی چوٹی پر فائز تھے۔ آپ وہی سچوں کے سردار ہیں جنہیں قرآن نے صدّیق کے عنوان سے بیان کیا ہے:
’’والذین آمنو باللہ و رسلہ اولئک ھم الصدیقون ۔۔۔‘‘ (حدید،
۱۹)
وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے وہی صدّیقین ہیں۔
یہ آیت احمد بن حنبل کی روایت کے مطابق، حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔( الفضائل من فضائل علی، ح
۳۳۹ و ۱۵۴، الریاض النضرہ، ج۲ ص۱۵۳، کنزل العمال، ج۶ ص۱۵۲، فیض القدیر، ج۴ ص ۱۳۷، الدر المنثور، ج۵ ص ۲۶۲)
قرآن کریم میں بہت ساری ایسی آیتیں ہیں جو اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ امام علی علیہ السلام ’’ایمان‘‘ کے حقیقی مصداق ہیں۔
خداوند عالم کا ارشاد ہے:
’’آجعلتم سقایۃ الحاج و عمارۃ المسجد الحرام کمن آمن باللہ و الیوم الاخر و جاھد فی سبیل اللہ لا یستون عند اللہ واللہ لا یھدی القوم الظالمین‘‘ ( توبہ
۱۹)
کیا تم نے حاجیوں کو سیراب کرنے اور مسجد الحرام کو آباد کرنے کا عمل اس شخص کے عمل کی طرح قرار دیا ہے جو اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے اور راہ خدا میں جہاد کرتا ہے؟ یہ دونوں خدا کے نزدیک برابر نہیں ہیں خدا ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا۔
یہ آیت اور اس کے بعد والی آیتیں، امام علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ اور یہ اس وقت نازل ہوئیں جب طلحہ بن شیبہ اور عباس ایک دوسرے پر فخر فروشی کر رہے تھے، طلحہ نے کہا:
’’ میں خانہ خدا سے زیادہ قریب ہوں اس لیے اس کی کنجیاں میرے پاس ہیں‘‘
عباس نے جواب میں کہا:
’’میں زیادہ قریب ہوں اس لیے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاتا ہوں‘‘
اس درمیان حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
’’ میں وہ ہوں جو سب سے پہلے خدا پر ایمان لایا اور سب سے زیادہ جہاد کیا‘‘۔
اس کے بعد خداوند عالم نے علی علیہ السلام کے بیان کی تائید کرتے ہوئے ان کی افضلیت کے بارے میں یہ آیت نازل کی۔ ( الدر المنثور، ج
۳، ص۳۱۹ و ۳۱۸؛ تفسیر ابن کثیر: ج۲ ص۲۴۱: تفسیر طبری ج۱۰، ص۶۸؛ تفسیر کبیر ج۱۶ ص۱۰؛ جامع الاصول: ج۹ ص۴۷۷)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لا یستوون(سجدہ
۱۸)
کیا وہ شخص جو مومن ہے اس شخص کے جیسا ہے جو فاسق ہے؟ ہر گز یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔
یہاں پر مومن سے مراد حضرت علی اور فاسق سے مراد ولید ہے۔ ( تفسیر طبری: ج
۲۱، ص۶۸؛ تفسیر ابن کثیر: ج۳ ص۴۶۲؛ فتح القدیر: ج۴ ص۲۴۷؛ اسباب النزول ۲۶۳؛ ذخائر العقبیٰ: ص۸۸: شواھد التنزیل: ج۱ ص۴۴۴؛ انساب الاشرف بلاذری: ص۱ ص۱۶۲، تاریخ دمشق: ص۶۱ ص ۱۹۹)
دوسری آیت میں ارشاد ہے:
’’۔۔۔ و اولو الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المومنین المھاجرین۔۔۔‘‘ (احزاب،
۶)
اور کتاب اللہ کی رو سے رشتے دار آپس میں مومنین اور مہاجرین سے زیادہ حقدار ہیں۔
مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہاں پر مومن، مہاجر اور ارحام سے مراد حضرت علی ہیں۔ ( احقاق الحق، ج
۳ ص۴۱۹)
پیغمبر اکرم نے بارہا اس بات کا تذکرہ فرمایا کہ حضرت علی شریعت اسلام اور تعلیمات الہیہ کے سامنے خاضع تھے۔
امیر المومنین اپنے ٹھوس ایمان اور خدا کے ساتھ گہرے رابطے کی بنا پر تمام مشکلات اور سختیوں کو حل کرنے کی توانائی رکھتے تھے۔
جناب ابوذر غفاری سے روایت ہے کہ:
’’ رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اصحاب میں سے کون آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے تاکہ اگر کبھی کوئی مسئلہ پیش آئے تو اس کی طرف رجوع کروں اور اگر کسی مشکل میں گرفتار ہو جاوں تو اس کے پاس جاوں؟
پیغمبر اکرم نے فرمایا: ’’علی تم سب سے زیادہ اسلام اور تسلیم ہونے میں پیش قدم ہیں‘‘ (مناقب مرتضوی ترمذی: ص
۹۵ کنزل العمال، ج۶ ص۳۹۵)





Monday 14 September 2015

شیعہ قرآن مجید میں کس معنی میں استعمال ہوا ہے؟





قرآن کریم میں لفظ ”شیعہ “ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور بڑی شخصیتوں کی پیروی کرنے والوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ خداوندعالم (حضرت موسی (علیہ السلام) کے واقعہ میں)فرماتا ہے : ” وَ دَخَلَ الْمَدینَةَ عَلی حینِ غَفْلَةٍ مِنْ اٴَہْلِہا فَوَجَدَ فیہا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلانِ ہذا مِنْ شیعَتِہِ وَ ہذا مِنْ عَدُوِّہِ فَاسْتَغاثَہُ الَّذی مِنْ شیعَتِہِ عَلَی الَّذی مِنْ عَدُوِّہِ “(۱) ۔ اور موسٰی شہر میں اس وقت داخل ہوئے جب لوگ غفلت کی نیند میں تھے تو انہوں نے دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا ایک ان کے شیعوں میں سے تھا اور ایک دشمنوں میں سے تو جو ان کے شیعوں میں سے تھا اس نے دشمن کے ظلم کی فریاد کی ۔
دوسری جگہ فرماتا ہے : ” وَ إِنَّ مِنْ شیعَتِہِ لَإِبْراہیمَ ، إِذْ جاء َ رَبَّہُ بِقَلْبٍ سَلیم“ (۲) ۔ اور یقینا نوح علیہ السّلام ہی کے پیروکاروں میں سے ابراہیم علیہ السّلام بھی تھے ، جب اللہ کی بارگاہ میں قلب سلیم کے ساتھ حاضر ہوئے ۔
اختلاف اور تفرقہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے : ”مِنَ الَّذینَ فَرَّقُوا دینَہُمْ وَ کانُوا شِیَعاً کُلُّ حِزْبٍ بِما لَدَیْہِمْ فَرِحُونَ “ (۳) ۔ ن لوگوں میں سے جنہوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں پھر ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر مست اور مگن ہے ۔
جب بھی پیروی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ مثبت اور ایجابی پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے (۴) اور جب تفرقہ اور اختلاف کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو اس وقت منفی معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے (۵) ۔
لیکن حدیث میں چونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) اصلی عرب تھے لہذا انہوں نے اس لفظ کو اس کے حقیقی معنی (پیروی کرنے والے )میں استعمال کیا ہے ۔ جس وقت یہ آیت ” إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ اٴُولئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ “ (اور بے شک جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بہترین خلائق ہیں )(۶) ۔نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس سے حضرت علی (علیہ السلام) کی پیروی کرنے والوں (شیعوں) کی تعریف کی ۔ محدثین اور مفسرین نے متعدد روایات میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کی پیروی کرنے والے گروہ کو خیر البریة (بہترین انسان) کے نام سے یاد کیا ہے ۔
ان میں سے بعض احادیث یہ ہیں :
۱۔ ابن مردویہ نے عایشہ سے اس طرح نقل کیا ہے کہ عایشہ نے کہا : یا رسول اللہ (ص) خدا کے نزدیک بہترین افراد کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا : ائے عایشہ ! کیا تم اس آیت ” ان الذین آمنوا و عملوا الصالحات اولئک ھم خیر البریہ ) کی تلاوت نہیں کرتی ہو؟(۷) ۔
۲۔ ابن عساکر نے جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) کے پاس موجود تھے کہ حضرت علی (علیہ السلام) تشریف لائے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) نے فرمایا : اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ اور ان کی پیروی کرنے والے قیامت کے روز کامیاب ہیں، اور یہ آیت ” إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ اٴُولئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ “ نازل ہوئی ۔ اس کے بعد سے جب بھی حضرت علی (علیہ السلام) آتے تھے تو اصحاب کہتے تھے خیر البریہ“ (بہترین انسان) آگئے (۸) ۔
۳۔ ابن عدی اور ابن عساکر نے ابوسعید سے نقل روایت کی ہے کہ ” علی“ (علیہ السلام) خیر البریہ ہیں(۹) ۔
۴۔ ابن عدی نے ابن عباس سے نقل کیاہے : جب یہ آیت ” إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ اٴُولئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِنازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا : قیامت کے روز آپ اور آپ کی پیروی کرنے والے”خیر البریة“ (بہترین انسان) ہیں، آپ لوگ بھی اللہ سے راضی ہو اور اللہ بھی تم لوگوں سے راضی ہے (۱۰) ۔
۵۔ ابن مردویہ نے حضرت علی (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام)نے فرمایا کہ مجھے سے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: کیا تم نے خداوند عالم کے اس کلام کو نہیں سنا ہے ” إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ اٴُولئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ “ ؟ خیر البریہ آپ اور آپ کے چاہنے والے ہیں ،میں تم سے حوض کوثر کے پاس ملنے کا وعدہ کرتا ہوں، جس وقت امتوں کو حساب و کتاب کے لئے بلایا جائے گا، تو تم کو بھی بلایا جائے گا (۱۱) ۔ (۱۲) ۔
۱۔ سورہ قصص، آیت ۱۵۔
۲۔ سورہ صافات، آیت ۸۳۔۸۴۔
۳۔ سورہ روم، آیت ۳۲۔
۴۔ جیسے : ” وَ دَخَلَ الْمَدینَةَ عَلی حینِ غَفْلَةٍ مِنْ اٴَہْلِہا فَوَجَدَ فیہا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلانِ ہذا مِنْ شیعَتِہِ وَ ہذا مِنْ عَدُوِّہِ فَاسْتَغاثَہُ الَّذی مِنْ شیعَتِہِ عَلَی الَّذی مِنْ عَدُوِّہِ “(۱) ۔ اور موسٰی شہر میں اس وقت داخل ہوئے جب لوگ غفلت کی نیند میں تھے تو انہوں نے دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا ایک ان کے شیعوں میں سے تھا اور ایک دشمنوں میں سے تو جو ان کے شیعوں میں سے تھا اس نے دشمن کے ظلم کی فریاد کی ۔
۵۔ ” اٴَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعاً وَ یُذیقَ بَعْضَکُمْ بَاٴْسَ “ ۔(سورہ انعام ، آیت ۶۵) ۔
۶۔ سورہ بینہ ، آیت ۷۔
۷۔ الدر المنثور ، ج ۶، ص ۵۸۹، سورہ بینہ کی ساتویں آیت کی تفسیر۔
۸۔ گذشتہ حوالہ، ج ۶،ص ۵۸۹۔
۹۔ گذشتہ حوالہ۔
۱۰۔ الدر المنثور ، ج ۶، ص ۵۸۹۔
۱۱۔ گذشتہ حوالہ۔
۱۲۔ سیمای عقاید شیعہ، ص ۲۵۔

سرچشمۂ معرفت


لفظ شیعہ قرآن مجید میں:

٤۔ شیعہ یعنی تابع قرآن شدن
بندہ مولای انس و جان شدن
قرآن مجید میں شیعہ و مشتقات شیعہ گیارہ مقام پر ذکر ہوئے ہیں:
لفظ
تعداد
سورہ
آیت
شیعة
١
مریم
٦٩
شیعتہ
٣
قصص صافات
صافات ٥٣
شیع
١
حجر
١٠
شیعاً
٤
انعام قصص روم۔
۔قصص ٤ روم ٣٢
اشیاعکم
١
قمر

باشیاعھم
١
سبا


٣۔ شیعہ اصطلاحاً:
شیعہ یعنی دست بیعت با علی
بعد از او با ےازدہ نور جلی
بعض الفاظ ِعرب وضع کے خلاف استعمال ہوتے ہیں اور عرف میں دوسرے معنی میں مشہور ہوجاتے ہیں جیسے لفظ صلاة کو واضع نے دعا کے معنی کے لیے وضع کیا لیکن بعد میں خاص افعال صلاة کہلائے اسی طرح لغت میںکسی لفظ کے معنی کچھ اور ہیں جبکہ عرف میں کسی دوسرے معنی میں مشہور ہوجاتا ہے۔ لفظ شیعہ کا بھی یہی حال ہے۔ لغت میں شیعہ کسی خاص شخص کی پیروی واطاعت کرنے والے گروہ کو کہتے ہیں لیکن اصطلاح میںحضرت علی ابن ابی طالب اورگیارہ اماموں کی پیروی و اطاعت کرنے والوں کو شیعہ کہتے ہیں۔
اگر اصطلاحات شیعہ پر غور و فکر سے کام لیا جائے توچند اختلافات نظر آئیںگے۔ جس کا اختصار کے ساتھ بیان کردینا مناسب ہے۔
الف۔ شہید ثانی رضوان اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: شیعہ وہ ہے کہ جو حضرت علی کا مطیع و فرمانبردار ہو اور حضرت علی کو دیگر تمام اصحاب پیغمبر ۖ پر فوقیت دیتا ہو ۔ چاہے باقی گیارہ اماموں کی امامت کا قائل نہ بھی ہو۔
شہید ثانی کی اس تعریف کے مطابق لفظ شیعہ امامیہ، اسماعلیہ، زیدیہ، جارودیہ، واقفیہ، ذوادویہ اور فطحیہ وغیرہ پربھی برابر سے منطبق آئے گا۔چونکہ یہ تمام فرقے حضرت علی کی امامت کے قائل ہیں اور حضرت علی کو اصحاب پر مقدم جانتے ہیں اور باقی ائمہ علیہم السلام کی امامت کے قائل نہیں ہیں.
ب: شہرستانی ملل و نحل میں کہتے ہیں کہ: اصطلاح میں شیعہ ان لوگوں کو کہاجاتا ہے کہ جو حضرت علی کی امامت کے قائل ہوں اور خلافت علی پر نص پیغمبرۖ کے معتقد ہوں اگرچہ نص جلی ہو یا خفی اور امامت کو علی و اولاد علی یعنی بارہ اماموں میں منحصر جانتے ہوں جن میں اول حضرت علی اور آخر امام زمانہ عجل اللہ تعالے فرجہ الشریف ہیں۔
ج: ابن حزم کہتے ہیں کہ جو شخص بھی اس بات کا قائل ہے کہ حضرت علی بعدِ پیغمبر ۖ تمام اصحاب رسول ۖ اور تمام امت مسلمہ سے افضل واعظم ہونے کے باعث امامت و خلافت کے مستحق ہیںاور علی اورگیارہ امام آیت (ےٰا اَےُّھَا الَّذِےْنَ آمَنُوْا اَطِےْعُوا اللّٰہَ ... الخ) (١)کے تحت اولی الامر ہیں جو شخص بارہ اماموں کی امامت و ولایت کاقائل ہے بس وہی شخص شیعہ ہے اگرچہ نظر یاتی حوالے سے اختلاف بھی رکھتا ہو۔
لغوی اصطلاحات و تعریفات پر غور و فکر کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ابن حزم اور شہرستانی کی تعریفیں دیگر تمام تعریفوں سے بہتر اور اچھی ہیں۔چونکہ ان دو نوںحضرات نے حضرت علی اور دیگر ائمہ اطہار علیہم السلام کے افضل الناس ہونے کا ذکر کیا ہے اور یہ بات شیعہ عقائد میں بنیا د و اساس کی حیثیت رکھتی ہے لہذا فرقہ زیدیہ کو شیعیت کا جزء قرار دینا بعیداز نظر ہے چونکہ فرقہ زیدیہ علوی نظریہ کا قائل ہے اسی لیے یہ فرقہ نص کے اعتبار سے عقیدہ نہیں رکھتے ہیں ان کاحال یہ ہے کہ علوی کی حمایت میں عقل سلیم کو بالائے طاق رکھ کرتلوار سے بات کرتے ہیں۔یہ حمایت کے معاملہ میں تلوار کا سہارا لیتے ہیں اور عقل سلیم کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ۔جوبھی نسل علوی سے ہو پس اس کو امام مانتے ہیں لہذا اس فرقہ کو شیعہ نام دینا یا جزء شیعہ قرار دیناایک فاحش غلطی ہے۔ حقیقی شیعہ اور واقعی شیعہ کا ذکر بعد میں کریں گے کہ شیعہ کی کتنی اقسام ہیں اور ان کے در میان کیا کیا اختلافات ہیں۔
..............
١: نساء /٥٩